تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے جہاں تعلیم کےحوالے سےآج تک کوئی قابل قدر کام نہ ہوسکا۔ تعلیمی نصاب اور تعلیم سے متعلقہ مسائل کا شکار مملکت پاکستاں گزشتہ 77سالوں سے اس گرداب سے نہیں نکل پایا ۔آج دنیا ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور ستاروں سے اگلے جہانوں کی بات ہورہی ہے لیکن ملک پاکستان کے تعلیمی مسائل جوں کے توں ہیں۔ تعلیمی میداں میں پاکستاں اس وقت 138 ویں نمبر پر ہے ۔
اس وقت اگرملک پاکستان میں تعلیم کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی۔ ملک پاکستان میں رائج کئی طرح کے نصاب تعلیم جہاں ایک طرف والدین کے لئے الجاؤ کا باعث ہے تو دوسری طرف اس طرح کے نصاب تعلیم سے تعلیمی ثمرات صرف ایک محدود طبقےیا اگر کہا جائے کہ امیر طبقے تک محدود رہتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔
ایک نوکری کے لئے جب او لیول اے لیولاور دیگر اسی طرح کے نظام تعلیم سے نکلے ہوئے لوگوں کا مقابلہ سرکاری پیلے اسکول کے بچوں سے کیا جائے گا تو طاہر ہے کہ پیلے اسکول کا فاضل ان کا مقابلہ کیسے کرسکے گا ۔صرف یہ نعرہ کہ تعلیم سب کے لئے کافی نہیں بلکہ نصاب تعلیم کو ایسا بنایا جائے کہ تمام طالبعلم ایک ہی طرح کے نصاب تعلیم سے استفادہ کریں۔
نصاب تعلیم کا یکساں ہونا اس دور کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔ جب تک ملک پاکستان میں یکساں نصاب تعلیم رائج نہیں کیا جاتا تب تک تعلیمی مسائل سے چھٹکارہ ممکن نہیں ویسے بھی ایک اعلی طرز کے تعلیمی نظام سے نکلنے والے کاایک بوسیدہ طرز کے نظام تعلیم سے نکلنے والےطالبعلم سے موازنہ کسی طور پر بھی عدل کے اصولوں کے مطابق نہیں ۔
پورے ملک پاکستان میں ایک ہی جیسا تعلیمی نصاب رائج کیا جانا چاہیئے ملک میں تعلیمی حوالے سے بنائی جانے والی پالیسیاں حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے کا نظارہ پیش کرتے ہوئے دم توڑ دیتی ہیں۔ واضح ٹھوس حکمت عملیوں کے بغیر کوئی معجزہ ہی ہوسکتا ہے جو اس گرتے ہوئے نظام تعلیم کو سہارا دے سکے کیونکہ خزان رسیدہ پتوں سے رکھی جانے والی توقعات کبھی بھی پوری نہیں ہوتیں ۔
اگر پاکستان میں تعلیم کو بہتر بنانا ہے اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سارے ملک پاکستان میں یکساں اور ایک سا نصاب تعلیم اور اس کو چلانے کے لئے واضح اور ٹھوس حکمت عملی اور اس کے ساتھ ساتھ بہتریں اصلاحات تعلیم۔ بدقسمتی سے آج تک جو تعلیمی رجحاں رہا وہ کوئی قابل ستائش نہیں ہے ۔ہماری درسگاہوں کی اسناد اور ان سے فارغ تحصیل طلباء کی عالمی دنیا کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے اس کی ایک بڑی وجہ ملک پاکستان کے نظام میں موجود سفارش کلچر اور رشوت ہے۔
تعلیمی مسائل کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ملک پاکستان اس میں بھی سر فہرست ہے نصاب کی کتابوں کی ؑعدم دستیابی تعلیمی سال کےشروعاتی عرصے میں ہی نصاب کی کتب کا منظر عام سے غائب ہوجانا اور پھر عین بیچ سال کے دستیاب ہوجانا اور اس کے ساتھ تعلیمی اداروں کی حالت زار یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں اور آئے روذ کا معمول ہیں سارا سال طلباء اسکول سے غاءب رہتے ہیں اور امتحانات کے دوران ان کی ساری توجہ شارٹ کٹ راستوں اور نقل کی جانب ہوتی ہے اور اس سلسلے میں انہیں انتظامیہ کی جانب سے بھرپور تعاوں حاصل ہوتا ہے۔
امتحانی مراکز کے ارد گرد گو کہ دفعہ 144لگائی جاتی ہے لیکن آج تک ادس پر عملدرآمد نہ ہو سکا بلکہ ملک وقوم کے محافظ دفعہ 144 پر عملدرآمد کیا کراتے بعض جگہوں پر وہ خود سہولتکار بن کر نقل کرانے میں مصروف ہوتے پہیں۔ نیا تعلیمی سال شروعاتی مراحل سے گزر رہا ہے اور نصابی تعلیمی کتب مارکیٹ سے غائب ہیں ایسے میں اس تعلیمی نظام اور ملک پاکستان میں رائج تعلیم سے کیسے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں موجودہ تعلیمی نصاب ہماریے قومی تقاضوں سے کسی صورت ہم آہنگ نہیں یہ نصاب ہمارے بچوں کو ڈاکٹر،انجینئر ،وکیل ،سائنسدان تو بنا سکتا ہے لیکن ایک محب وطن پاکستانی نہیں کیونکہ اس فرنگیانہ نظام تعلیم نے ہمارے نوجواںن کا رشتہ اس کی ملت سے کاٹ رکھا ہے
ملت کے ساتھ رشتہ تو استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
طالبعلم کو تاریخ سے نابلد رکھ کر دھیرے دھیرے اس کی رگوں میں مغربی اور ہندوانہ کلچر کے انجکشن لگا کر اس موجودہ نصاب کے زریعے اس کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا گیا ہے۔ اسے اس نصاب تعلیم کے ذریعے یہی سمجھایا گیا کہ مسلمان ہمیشہ ہی پستی کا شکار رہے اور انہوں نے کوئی قابل قدر کام نہیں کیا موجودہ فرنگیانہ نصاب تعلیم نے ہمارے طلباء سے وطن پرستی حب الوطنی جیسی صفات کو ختم کردیا ہے
اک لرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ تیری آنکھ نہ ہو سیر
بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا جرم
برے پہ اگر فاش کریں قاعدہ شیر
سینے میں رہیں راز ملوکانہ تو بہتر
محکوموں کو کرتے نہیں تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے ڈھیر
موجودہ نطام تعلیم سے ہمارے طلباءمزید الجھاؤ کا شکار ہورہے ہیں ۔موجودہ کئی طرح کے نظام تعلیم ہیں جن کا اپنا اپنا نصاب تعلیم ہے جو کہ طلباء میں احساس محرومی کو جنم دے رہا ہے ۔او لیول اور اے لیول سے نکلنے والوں کا موازنہ سرکاری پیلے اسکول کے بچوں سے کرنا بھلا کہاں کا انصاف ہے۔
ہمارے نطام تعلیم کی زبوں حالی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرکاری اسکولوں سے اساتزہ کی غیر حاضری اسکولز میں سہولیا ت کی عدم موجودگی کلاسز میں سہولیات کا نہ ہونا کرپشن فنڈز کا خرد برد اور اعلی عہدوں پر من پسند افراد کی تعیناتی سے لیے کر اسکولوں کی اراضی کو اصطبل اور باڑوں کے لئے استعمال کرنا ایسے اسکول جو روئے زمیں پر پائے ہی نہیں جاتے اور ان کے لئے باقاعدہ فنڈز مختص ہیں۔
ملنے والی امداد کا غیر منصفانہ استعمال تعلیم کے لئے بجٹ میں دو فیصد حصہ رکھنا نقل کلچر آئے روز نصاب کی تبدیلی نصابی کمیٹیوں میں سیاسی افراد کی تعیناتی ناکارہ تعلیمی نظام اور بوسیدہ امتحانی نظام کے ساتھ ہم ترقی کی منازل کو طے نہیں کرسکتے ۔پاکستاں کا 50فیصد طبقہ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہےجو کہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے بڑی مشکل سے اپنا اور اپبنے بچوں کا پیٹ پال پا تا ہے ایسے میں یہ طبقہ پرائیویٹ اسکولز کی بھاری فیسز کے بوجھ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
جبکہ سرکاری اسکولز میں تعلیم کے سوا سب کچھ دستیاب ہے ۔اگر ہم اپنے ملک پاکستان میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں تو ہمیں سب سے پہلے موجودہ تعلیمی نظام کو خیر باد کہنا ہوگا اور یکساں نظان تعلیم کو رائج کرنا ہوگا۔ سرمایہ دار پبلشنگ مافیا مہنگی کتابوں کے ذریعے اپنی تجوریوں کو بھرنے میں مصروٖ ف ہے۔
ایک ایک سبجیکٹ کے پانچ پانچ ایڈیشن ہر نئے سال نئے ایڈیشن کا منظر عام پر آجانا تعلیم کے ساتھ کھلواڑ ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ملک میں یکساں نظام تعلیم کو رائج کرے قطع نظر اس کے کہ وہ نصاب تعلیم اے لیول ہو او لیول ہو یا پھر سرکاری اسکولز میں پڑھایا جانے والا عام نصاب۔
ہمیں اپنے اس تعلیمی نظام میں اصلاحات لانی ہوں گی اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہو گا۔ اگر آج ہم تعلیمی حوالے سے کچھ اچھا کام کرلیتے ہیں تو یقینا ہم آنے والی نسلوں کو ایک بہتر نظام تعلیم فراہم کرسکیں گے ورنہ ہمارے یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ لہذا اس تعلیمی نطام اور موجودہ نصاب میں نئی تعلیمی اصلاحات اور حکمت عملی کا آختیار کرنا اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے جس سے کسی طور بھی انکار ممکن نیہں ۔
ہمارے موجودہ تعلیمی نصاب کا قومی امنگوں اور عالمی نصاب تعلیم سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے ۔آج اگر ہم اس نہج پر پہنچ کر کچھ اچھے فیصلے کر کے ان پر عملدرآمد کرلیتے ہیں تو ہمارے اس تعلیمی نظام اور اس سے متعلقہ مسائل سے مستقبل میں بخوبی نمٹا جاسکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی مسائل گو کہ بہت زیادہ ہیں لیکن اگر ہم انسے آنکھیں چراتے رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
یہ بھی پڑہیں: زندگی کیا ہے؟