Wednesday, December 11, 2024
HomeBlogکامیابی کی راہ میں یقین کا کردار

کامیابی کی راہ میں یقین کا کردار

لفط یقین ایک کثیرالمعنی لفط ہے جس کے کئی معنی ہی  یقین ،اعتماد ،اعتبا اور بھروسےاور وثوق  کو کہتے ہیں اس کے علاوہ یقین کسی شے کے بارے میں شک کا نہ ہونا  یا کسی شے کی اصلیت پر دل کا مطمئیں ہونااورکسی شے  کے بارے میں کامل اور غیر متزلزل وثوق کا ہونا یقیں کہلاتا ہے

یقیں اور ہماری کامیابی وناکامی

یقین کا یہ نظام ہماری کامیابی اور ہماری ناکامی کاذمہ دار ہوتا ہے یقین کےاسی نظام کی بدولت ہم کامیاب اور ناکام ہوا کرتے ہیں ۔جب ہم کسی شے  یا کام کے متعلق پورے یقین کے ساتھ کوشش کرتے ہیں تو وہ کام یقینی طور پر ہو جا یا کرتا ہے  ۔خلیل جبران کہتا ہے کہ “تمہیں ہر جگہ سے خزانہ مل سکتا ہے شرط صرف یہ ہے کہ تم کامیابی کے یقین کے ساتھ زمین کھودو ” کامیابی کا یہ یقین ہی ہوتا ہے جو ہمیں  کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے اور ہمیں ہماری منزل تک پہنچاتا ہے جبکہ ناکامی کا صرف خوف ہی ہمیں یقینی طور پر ناکام بنا دیتا ہے اورکامیابی سے کوسوں دور کر دیتا ہے ۔دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئیں ہیں ان کے پیچھے کہیں  پختہ یقین کی تحریک موجود تھی اور آج بھی دراصل یہی یقین کی تحریک  کاروبار زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے ۔کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لئے یقین کا ساتھ ضروری ہوتا ہے کامیابیاں یقین کے سہارے ہی ملا کرتی ہیں جو گماں کے سہارے جیا کرتے ہیں ناکامی ان کا مقدر ہوتی ہے ۔

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

یقین کامل جب کسی انسا ن کو حاصل ہوجاتا ہے تو پھرکامیابی کی  منزل خود اسے پکارتی ہے  بندہ مومن چونکہ یقین محکم کی عملی تفسیر ہوتا ہے اسی لئے حدیث میں فرمایا گیا کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے  یہ نور مومن کو تب حاصل ہوتا ہے جب وہ اللہ پر کامل اور پختہ یقین رکھتا ہے اس کو اقبال کچھ ایسے بیان کرتے ہیں

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

یقین کی طاقت انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے جبکہ بے یقینی سے بڑی ناکامی اور کوئی نہیں ہے  بے یقینی موت ہے اور اس کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا کرتا علامہ اقبال فر ماتے ہیں کہ

سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار

غلامی سے بدتر ہے بے یقینی

یقیں کیسے وجود میں آتےہیں ؟

یقین کے بننے کے لئے کئی چیزیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں جس میں ہمارے مذہبی اعتقادات ہماری سوچین ہمارے بچپن کے تجر بات والدین سے ملنے والی ہدایات یہی وہ چیزیں ہوتی ہیں جو کہ مل کر ہمارے یقین بننے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں یہ یقین جب پختہ ہو جاتے ہیں تو  یہی ہمارے مزاج کی پہچان بن جاتے ہیں مزاج  ہماری شخصیت کا آئینہ دار ہوتاہے  لہذا کہا جاسکتا ہے کہ یقین ہماری شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتاہے  اور ہمارے اعمال پر بھی ایک شخص کو پختہ یقیں ہے کہ مرنے کے بعد اٹھایاجانا ہے  تو اس کے اعمال بھی اچھے ہوں گے جس کے نتیجے میں اس کی دنیا وآخرت سنور جائے گی اور اگر کسی کا مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقیں ہی نہیں تو اس کی بے یقینی اس کی دنیا ؤآخرت اور اس کی شخصیت کو تباہ کردے گی ۔

یقیں پختہ کیسے ہوتے ہیں ؟

یقین کی پختگی دراصل تجربات کے ذریعے حاصل ہوتی ہےاس کی واضح مثال کچھ اس طرح ہے کہ ایک بچے کو والدیں منع کرتے ہیں کہ سائیکل مت چلانا ورنہ گر جاؤگے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سائیکل چلاتے ہوئے بندہ گرتا ضرور ہے اب اگر وہ بچہ سائیکل چلاتے ہوئے گر جاتا ہے تو اب اس کا پختہ یقین بن جائے گا کہ سایئکل چلانے سے بندہ گرجاتاہے اور اس یقین کی یہی پختگی اسے ساری زندگی سایئکل چلانے سے دور رکھے گی تو یقین کی طاقت بھی کچھ اس ظرح سے کام کرتی ہے یہ انداسے ہم میں کسی کام کو کرنے کا حوصلہ وہمت بھی پیدا کرتی ہے اور اندر سے آنے والی بے یقینی کی آواز ہمیں ہماری منزل سے بھی دور کر دیتی ہے اور کبھی ہمیں کامیاب نہیں ہونے دیتی  یقین کی طاقت ہماری زندگی میں مشعل راہ کا کام دیتی ہے خود پر کامل یقین ہم پر کامیابی کے در وا کردیتا ہتے اور جب ہم اپنے یقین کے سہارے کوئی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو ہمارے وہ یقین ان تجربات سے حاصل ہونے والی کامیابی کے نتیجے میں پختہ یقین کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں

یقین کے درجات

یقین کے تین درجات ہیں علم الیقینِ،عین الیقین، حق الیقین یہ یقین کے درجات ہین جن کویہاں مختصر بیان کیا جاتا ہے

پہلا درجہ علم الیقیں

پہلا درجہ علم الیقین ہے اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ باہر سے کسی آنے والے شخص نے آپ کو بتایا کہ ٖفلاں جگہ آگ لگی ہے   اب جب آپ کے علم میں یہ بات آگئی کہ فلاں جگہ آگ لگی ہے تواسے علم الیقین کہا جاتا ہے کہ آپکے علم میں یہ بات آگئی ہے

دوسرا درجہ عین الیقین

یقین کا دوسرا درجہ یہ  عین الیقین کا دوسرا درجہ ہے مثال کے طور پر ایک شخص آکر کہتا ہے کہ فلاں جگہآگ لگی ہے آپ وہاںجاکر اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ واقعی آگ لگی ہے تو اسے عین الیقین  یا یقین کا دوسرا درجہ کہا جاتا ہے

تیسرا درجہ حق الیقین

یقین کا یہ تیسرا درجہ  حق الیقین ہے مثال کے طور پر کوئی شخص آکر کہتا ہے کہ فلاں جگہ آگ لگی ہے آپ وہاں جاتے ہیں وہاں جاکر آپ آگ کے نزدیک جاتے ہیں آگ کی تپش کو آپ محسوس کرتے ہیں یہ یقین کا تیسر اور آخری درجہ ہے جسے حق الیقین کہا جاتا ہے

پختہ یقین یا کامل یقین کے نتیجے میں ہی ہمیں کامیابیاں ملا کرتی ہیں یقین ہمیں ہماری منزل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا کرتے ہیں یقین کی طاقت ہمیں آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرتی ہے لہذا خود کو بے یقینی اور عدم یقین کی کیفیت سے باہر نکالیں اور یقین کی دولت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں کامیابی آپ کی منتظر ہوگی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments