Monday, September 16, 2024
HomeIslamدعا کی فضیلت واہمیت قرآن وحدیث کی روشنی میں

دعا کی فضیلت واہمیت قرآن وحدیث کی روشنی میں

دعا عربی زبان کا لفظ ہے ۔ لغت میں اس کے معنی پکارنے ،التجا کرنے یا فریاد کرنے کے ہیں ۔ جبکہ دینی اصطلاح میں دعا  سے مراد اللہ سے کچھ مانگنے طلب کرنےکے ہیں ۔ قرآن کریم میں لفظ دعا کئی مرتبہ آیا ہے ۔ اور حدیث میں بھی دعا مانگنے کی  بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔

دعا کے ذریعے اللہ ہماری حاجتوں کو قبول فرماتے ہیں دعا کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دعا کو مومن کا ہتھیار کہا گیا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ تبارک وتعالی سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میرا بندہ جانتا ہے کہ میں ہی اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں  َ۔

قرآن کریم کی روشنی میں دعا کی اہمیت اور اس کی فضیلت

قرآن کریم ذکر حکیم وہ ضابطہ حیا ت ہے کہ جس نے ہمیں  زندگی گزارنے کے طور طریقے بتائے قرآن کریم میں جابجا اللہ سے دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اللہ تعالی اس بندے سے ناراض ہوتے ہیں جو  اللہ سے دعا نہیں کرتا  دعا کو حدیث میں عبادت کا مغز کہا گیا ہے ۔

دعا کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اللتعالی نے دعا مانگنے کا حکم دیا ہے  چناچہ ارشاد باری تعالی ہے وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۔

ترجمہ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے ۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ سے دعا مانگیں اس سے دعا کی اہمیت وفضیلت واضح ہوتی ہے امام فخر الدین رازی اس آیہ کے تحت تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی عبادات میں دعا ایک بہتریں عبادت ہے اسی لئے اللہ تعالی نے  اپنے بندوں کو یہاں  دعا مانگنے کا حکم دیا ہے ۔قرآن کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جو اللہ تعالی سے اپنی حاجت روائی کی دعا نہیں کرتے ایسے لوگوں کو اللہ تعالی ناپسند فرماتے ہیں اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہر لمحہ ہم اپنے رب کے سامنے دست دعا  دراز کیئے رہیں کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں جو مجبور ،بے کس، ولاچار کی دعا سنے۔ وہی ہے جو ہم سب کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ہماری ان دعاؤں کے بدلے  میں ہمیں ان دعاؤں کا بہتریں اجر بھی عطاء فرماتا ہے۔

  چناچہ روایات میں آتا ہے کہ ایک پیر صاحب روزانہ رات کو مصلے پر بیٹھ جاتے اور اپنے مریدیں کو بھی ساتھ میں بٹھا لیتے اور ساری رات اپنے رب سے دعائیں  کرتے رہتے اور مریدیں ان دعاؤں پر آمین کہتے رہتے پوری رات گزر جاتی اسی طرح دعاؤں اور آہ وزاری  کا سلسلہ ساری رات جاری رہتا طویل دعا ہوا کرتی تھی  ایک دن ایک مرید نے شیخ سے کہا کہ آپ دعا کرنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے کہ میں دیکھتا ہوں کہ روز دعا ہوتی ہے اور اس دعا کے کوئی اثرات نہیں ہوتے ان پیر صاحب نے مرید سے کہا کہ کیا کوئی اور در بھی ہے جس پر اللہ کو چھوڑ کے جایا جائے ہمیں تو بس اسی کے حضور دعا کرنی ہے وہ ہماری دعا کو قبول کرے تو بھی اور اگر وہ ہماری دعا کو قبول نہ کرے تب بھی اس کے علاوہ کون ہے جو ہماری دعاؤں کو سنے گا کیا اور بھی کوئی ہے  دعاؤں کا سننے والا  ہمیں ہر لمحہ اسی کے دامن کرم سے وابستہ رہنا چاہیئے اور اپنی دعائیں اسی سے مانگتے رہنا چاہیئے چناچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ

اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَﭤ)

یا وہ بہتر جو مجبور کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارے اوربرائی ٹال دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث کرتا ہے۔ کیا الله کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے؟تم  بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو

دعاؤں کا حقیقی سننے والا تو اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی نہ ہی اس کی طرح  نہ ہی دعا سننے پر قادر ہے اور نہ ہی کسی ے کی فریاد رسی یعنی دعا قبول کرنے پر قادر ہے ۔ مذکورہ آیہ مبارکہ میں بھی اللہ تعالی  ایک سوالیہ  انداز تخاطب  اختیار کرتے ہوئے مشرکیں مکہ سے خطاب کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ان کے وہ بت بہتر ہیں جنہیں وہ اللہ کے سوا  پکارتے ہیں یا اللہ واحد وقہہار  جو ہر مجبور اور لاچار کی دعا سنتا ہے ۔

بندہ مومن دعا کے لئے جب اپنے ہاتھوںکو اللہ کی بارگاہ مین بچھا دیتا ہے تو اللہ اس کے ہاتھوں کو خالی نہین لوٹاتا  اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے ۔اگر دعا میں مانگی جانے والی چیز اس بندہ مومن کے حق میں نہیں ہوتی تو اللہ تعالی اس دعا کے نتیجے میں اسے  اس سے بہتر شے عطاء فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالی اس بات کو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ  میرے اس بندے کے حق میں کیا شے بہتر ہے اور کیا نہیں اس لئے عارفین اس طرح دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعا لی اگر یہ شے میرے حق میں بہتر ہے تو مجھے عطاء فرمادے اور دعا کا دوسرا حصہ کچھ اس طرح ہے کہ اگر یہ مجھے تجھ سے دور کردے تو توں اسے مجھ سے دور رکھ ۔ اللہ تعالی مومن کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں تو

ومن کی دعا کیوں قبول نہ فرمائینگے ۔ جب بندہ مومن اللہ تعالی کی بارگاہ میں صدق دل سے  گڑ گڑا کر دعا مانگتا ہے  تو اللہ تعالی اس  کی دعا کو ضرور قبول کرتے ہیں بندہ مومن کی دعا کبھی رد نہیں کی جا تی دعا کی قبولیت کے لئے کچھ چیزیں ضروری ہیں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ  ہم بے دلی سے دعائیں مانگتے ہیں اور جب وہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں  تو  زبان پر شکوے اور شکایات  لانے لگ جاتے ہیں دعا کی قبولیت کا سب سے پہلا پیمانہ یہ ہے کہ اکل حلال وصدق مقال یعنی حلال کا کھانا اور سچائی کا اختیار کرنا جس شخص میں یہ بات ہو اس کی دعا قبول ہوا کرتی ہے اپنی دعاؤں میں اثر پیدا ا کرنے کے لئے  ذکر ربی کا اہتمام ضرور رکھنا چاہیئے  اس طرح دعائیں قبول ہوتی ہیں دعا اللہ تک فوری رسائی کا ایک ایسا ذریعہ ہے  کہ جیسے ہی بندہ مومن نے ہاتھ اٹھائے بندہ بارگاہ الہی میں جاپہنچا کیا یہ سعادت کچھ کم ہے کہ بندہ مومن دعا کے ذریعے رب سے تعلق جوڑ لیتا ہے ۔رب سے تعلق جوڑنے کا بہتریں ذریعہ صرف دعا ہے حدیث میں آتا ہے کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ  افضل الدعا استغفار کہ اذکار میں افضل ذکر لا الہ الا اللہ اور افضل دعا استغفار ہے ۔

رب کریم سے بندے کا مانگنا یعنی بندے کی دعا  اللہ کو بڑی پسند ہے اسی لئے ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں مختلف اوقات میں  ہمیں اللہ سے مختلف دعائیں مانگنے کی تلقیں کی ہے  سو کر اٹھنے کی دعا ، سونے کی دعا ، دودھ پینے کی دعا ، پانی پینے  کی دعا ، بیت الخلاء میں جانے کی دعا ، بیت الخلاء سے نکلنے کی دعا ، وضو کی دعا  ، استخارے کی دعا ،وضو کے بعد کی دعا ، قبرستان جانے کی دعا ،سفر کی دعا ،اذان کے بعد کی دعا  ،جنازے کی دعا  نئے کپڑے پہنے کی دعا ، یہ تمام دعائیں اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی امت کو تعلیم فرمائیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعا کی  کتنی اہمیت ہے اور دین اسلام میں دعا کی  کتنی فضیلت ہے  دراصل ہم ان دن بھر کی دعاؤں سے اپنی دنیا ؤآخرت کو کامیاب بناسکتے ہیں   ہمار اپنے خالق ومالک کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ دعا کا رشتہ ہے اور ہر کام کے لئے شریعت مطہرہ نے جو دعا کا حکم دیا ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ بندے کا دعا کے ذریعے اپنے رب سے تعلق ہر لمحہ بہ لمحہ جڑا رہے  وہ دعا کے ذریعے اپنے رب کو دن بھر پکارتا رہے ۔ایک دعا کی حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے  اور بڑی فضیلت والی دعا بھی ہے وہ دعا ہے دین اور دنیا کی بھلائی کی دعا  وہ دعا ہے ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ وفی الاخرت حسنتہ وقنا عذاب النار  یہ ایک  ایسی دعا ہے جس کی فضیلت  حدیث سے ثابت ہے اور یہ ایک مجرب تریں دعا ہے اس دعا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب کسی بندہ مومن پر شیطان کا بس نہیں چلتا تو وہ کہتا ہے کہ میں اس کو مرتے وقت گمراہ کردوں گا لیکن جب وہ بندہ مومن اس دعا کو آختیار کرتا ہے تو شیطان کی ہڈیاں ٹوٹنے لگ جاتی ہیں ہیں اور وہ کہتا ہے کہ  ہائے اس دعا کے ذریعے اس شخص نے اپنی دنیا اور اپنی آخرت کو مجھ س ے محفوظ کرلیا ۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دعا زمین اور آسمان کے درمیان معلق رہتی ہے جب تک رسولﷺ کی ذات اقدس پر درود نہ پڑھا جائے اس لئے کوئی بھی دعا کرنے سے قبل اور دعا کرنے کے بعد حضور اقدس ﷺ کی ذات گرامی پر درود بھیجنا چاہیئے اس طرح دعا رب کی بارگاہ میں مقبول ہو جایا کرتی ہے   اسی لئے  جب بھی عا رفین کسی کو کوئی وظیفہ  یا دعا بتاتے ہیں تو اس کے اول اور آخر نبی ﷺ پر درود پڑھنے کی تاکید بھی فرماتے ہیں کسی بھی پریشانی اور تکلیف کی حالت میں سب سے پہلے بندے کو اپنے رب سے دعا کرنی چاہیئے کہ اے اللہ پاک اس مشکل سے مجھے خلاصی عطاء فرما  ۔

ہمارا معاملہ عجیب ہے کہ  ہم پہلے تو تکلیف میں ڈاکٹروں کی جانب دوڑ جاتے ہیں  اور جب ڈاکٹر تھک ہار کر کہتا ہے کہ اب رب سے دعا کریں تو پھر ہم رب سے دعا کے ذریعے رجوع کرتے ہیں حالانکہ پہلے دعا کرنی چاہیئے تھی اس کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے تھا ۔اللہ سے مشکل وقت میں دعا مانگنا یہ انبیاء کا شیوہ اور ان کی سنت ہے اسی لئے قرآن میں جابجا انبیاء کی دعائیں مذکور ہیں  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ، حضرت ذکریا علیہالسلام کی دعا ،حضرت موسی علیہ السلام کی دعا حضرت آدم علیہ السلام کی دعا اس سے دعا جیسی عظیم عبادت  کی ٖفضیلت اور دعا کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ دعا کی اہمیت اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ مشکل اوقات  میں انبیاء کرام نے بھی دعا کے وسیلے سے ہی اللہ کو پکارا ہے۔ چناچہ  حضرت اباہیم علیہ السلام نے جباللہ سے اولاد کے لئے دعا کی تو اس کا تذکرہ قرآن کریم میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا  چناچہ قرآن کریم میں  دعائے ابراہیم کے بارے میں ارشاد ہے کہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَؕ- اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ(39)

ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل و اسحاق دئیے۔ بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے  اپنے رب کی بارگاہ میں ایک اور فرزند کی دعا کی تھی  تو اللّٰہ تعالیٰ نےآپ ؑ کی دعا قبول  فرمائی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا شکر ادا کیا اور بارگاہِ الٰہی میں  عرض کیا ’’تمام تعریفیں  اس اللّٰہ تعالیٰ کیلئے ہیں  جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود حضرت اسمٰعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دئیے۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ میری دعا قبول فرمانے والا ہے۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر99 برس ہو چکی تھی اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر مبارک 112 برس ہو چکی تھی ایسے حالات میں بھی ابراہیم علیہ السلام نے  رب سے دعا کی جبکہ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ  اب کچھ نہیں ہو سکتا لیکن ڈعا کے بعد اللہ تعالی نے نہ صرف ان کی دعا کو قبول  فر ما یا بلکہ انہیں اسمعیل  اور اسحاق علیہ السلام دعا کے نتیجے میں عطاء فر مائے ۔

خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۸۹، اسی لیئے دعا بڑی فضیلت والی چیز ہے  اور اس کی اہمیت کا اندازہ بھی اسی واقعہ سے ہوتا ہے کہ عموما اس عمر میں انساں کی صاحب اولاد ہونے کی  صلاحیت ختم ہو جاتی ہے لیکن اس عمر میں بھی نبی ابراہیم علیہ السلام  کا اللہ سے دعا کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ  ہمیں ڈعا مانگتے ہوئے یہ خیال نہیں ہونا چاہیئے کہ ہماری مصیبت یا مشکل بڑی ہے بلکہ یہ یقیں ہونا چاہیئے کہ جس  مشکل کشاء کے دربار میں میں نے دعا کر کے اپنی حاجات رکھی ہیں  وہ سب سے بڑا ہے  اسی طرح کا ایک اور واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جب حضرت ذکریا علیہ السلام نے رب کی بارگاہ میں دعا  کی چناچہ  قرآن نے اس واقعے کو کچھ اس طرح بیان فرمایا کہ

)9ٰ))هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(38

ترجمہ: ’’ یارب ! مجھے خاص اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرمادے ۔ بیشک تو دعا کا سننے والا ہے ۔

حضرت ذکریا علیہ السلام نے جب محراب مریم میں بے موسم کے پھل دیکھے تو مریم علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ سب کہاٰں سے آیا تو مریم علیہ  السلام نے کہا کہ یہ سب میرے رب کی طرف سے ہے یہیں حضرت ذکریا علیہ السلام نے سوچا کہ جو اللہ مریم علیہ السلام کو بے موسم کے پھل دے سکتا ہے وہ مجھے بڑھاپے میں اولاد کیوں نہیں دے سکتا  بس ذہن میں یہ بات آنی تھی کہ جو رب مریم علیہ السلم کو بے موسم کے پھل دے سکتا ہے وہ مجھے بڑھاپے میں اولاد کیوں نہیں دے سکتا تو وہیں کھڑے کھڑے محراب میں اللہ تعالی سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد عطاء فرما  یاد رہے کہ حضرت ذکریا علیہ السلم کی  بیوی بھی بانجھ تھیں  لیکن اس دعا کے وسیلے سے اللہ تعالی نے ان کی دعا کو قبول کرتے ہوئے انہیں یحیٰی علیہ السلام کی بشارت دی اور اس دعا کے نتیجے میں قرآن کریم میں ایک اور جگہ دعا کے بارے میں ارشاد ہے کہ

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ ط اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ(البقرۃ، 2 : 186)

اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راهِ (مراد) پا جائیں۔

   اس ایہ مبارکہ میں اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ سے ارشاد فرما رہے ہیں کہ میرے بندوں کو جب وہ آپ ﷺ سے میرے بارے میں پوچھیں  تو انہیں بتا دیں کہ  میں نزدیک ہوں ان کے اور میں ان کی اس پکار( دعا ) کا جواب بھی دیتا ہوں  تو انہیں چاہیئے کہ  وہ میری ہی فرمانبرداری کریں  اور مجھ ہی پر یقیں رکھیں  تاکہ ان کی مرادیں پوری ہوں  اس آیہ مبارکہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دعا کی اللہ تعالی کی نظر میں کتنی اہمیت اور کتنی فضیلت ہے کہ وہ خود اپنے بندوں سے کہ رہا ہے کہ  کہ مجھ سے مانگو میں تمہارے قریب ہوں۔

حدیث کی روشنی  میں  دعا کی  فضیلت  اور اس کی اہمیت

  •  ترمذی شریف میں  کتاب الدعوۃ میں حدیث مذکور ہے کہ دعا سراسر عبادت ہے۔
  • ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کوئی  چیز اللہ کے نزدیک دعا سے بہتر نہیں
  •  مسلم شریف کتا ب الوصیۃ کی حدیث ہے کہ جو چیزیں مرنے کے بعد بھی میت سے منقطع نہیں ہوتیں ان میں ایک دعا ہے۔
  • مسلم کتاب الصلوۃ کی حدیث ہے کہ نبیﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ  بندہ اللہ سے نزدیک سجدے کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت اللہ سے خوب دعا مانگو۔
  • ابو داؤد کی حدیث ہے کہ دو چیزیں ہیں  جو رد نہیں کی جاتیں  یا بہت کم رد کی جاتیں عیں  لڑائی کے وقت جب فوجیں گتھم گتھا ہوں اس وقت کی دعا  اور اور اذان کے وقت کی دعا ۔
  •  ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کی نبیﷺ نے ارشاد فر مایا کہ کہ بلا شبہ اللہ تعالی زندہ رہنے والا اور کریم ہے  اسے حیا آتی ہے اس بات سے کہ آدمی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اور وہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دے۔

وہب بن منبہ فر ماتے ہیں کہ ا یک حدیث میں ہے رسول ﷺ نے ارشاد فر ماتے  ہیں جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اسے چاہیئے کہ  حلال رزق کھائے ۔من درجہ بالا احادیث مبارکہ سے دعا کی اہمیت اور  اس کی فضیلت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے ہمیں  ہر حال میں اللہ سے اپنی ار اپنے  تمام مومن مسلمانوں کی بھلائی کی دعا مانگتے رہنا چاہیئے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments