تحریر : محمد راشد حسین رضوی
دنیا میں ترقی ہمیشہ تعلیم کی وجہ سے ممکن ہو پائی ہے اور تعلیم نے ہی قوموں پر ترقی کے در وازےکھولے تعلیم نسواں یعنی عورتوں کی تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی وکامیابی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیشیت رکھتی ہے تعلیم نسواں کے بغیر کوئی بھی انسانی معاشرہ اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتا ۔مرد ہو یا عورت ، تعلیم دونوں ہی کے لئے نہایت ناگزیر ہے ، تعلیم نسواں کو اسلام میں ایک اہم مقام حاصل ہے البتہ اس تعلیم نسواں کے لئے کچھ حدود و قیود ہیں جنکا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے۔
معاشروں اور اقوام کی سر بلندی تعلیم نسواں ہی کی وجہ سےممکن ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اور بیدار معاشرے اور قوموں میں تعلیم نسواں کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔تعلیم نسواں ترقی کی راہوں کو ہموار کرنے کے ساتھ ملکی بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے کا باعث ہوتی ہے، دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز تعلیم نسواں اور تعلیم نسواں کی اہمیت سے آگاہ ہونا ہی ہے ہی ہے جو قومیں تعلیم نسواں کو اہمیت نہیں دیتیں ترقی کے میدان میں پیچھے رہتی ہیں بربادی اور تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں تعلیم اور تعلیمی مسائل
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو ایک افیونی قوم ہوا کرتی تھی پھر جب انہیں ماؤزے تنگ جیسا ایک عظیم رہنما ملا جس نے ملکی سرمائے کو تعلیم پر لگانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں اپنے ملک کے تمام باشندوں سے بھی مدد طلب کی اور ان سے سرمایہ لے کر ملکی تعلیم پر لگادیا ،نتیجے کے طور پر آج چین دنیا کا ایک ترقی یافتہ ملک ،ایک بڑی معیشت اور دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے۔
دین اسلام میں تعلیم کی اہمیت
دین اسلام ایک سچا اور عالم گیر دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک مضبوط لائحہ عمل اور نظام حیات عطا کرتا ہے ایک ایسا نظام حیات جس میں علم ہو ، ترقی ہو ،آگے بڑھنا ہو خوشحالی ہو اور اس کے ماننے والوں کا معیار زندگی بلند ہو ، اسی وجہ سے دین اسلام نے طلب علم کو فرض قرار دیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا “طلب العلم فریضتہ علی کلم مسلم” ( علم حاصل کرنا ہر مسلمان اور عورت پر فرض ہے) اس حدیث میں علم حاصل کرنے کو صرف مردوں کےساتھ مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ عورتوں کو بھی اس کا مکلف بنایا گیا،البتہ عورت اسلامی تعلیمات اور دین کے طے کردہ اصولوں کے دائرے میں رہ کر علم حاصل کرنے کی پابند ہے ۔
تعلیم نسوان کی اہمیت اور اس کا معاشرتی ترقی میں کردار
کسی بھی معاشرے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں عورتوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک کامیاب عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح مردوں کو ناکام بنانے والی شے بھی عورت ہی ہے بلکہ اگر وہ پڑھی لکھی نہیں تو نسلوں کو ناکام بنا دے گی معاشرے کی تشکیل اور ترقی میں عورتوں کے کردار کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تعلیم ہر عورت کا بنیادی حق ہے جس سے کسے طور انکار ممکن نہیں حیرت کی بات ہے کہ حقوق نسواں کی آواز اٹھانے والے تعلیم نسواں کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھاتے شاہد اس لئے کہ اگر عورت تعلیم حاصل کرلے گی تو وہ باشعور ہو جائے گی یوں کچھ لوگوں کی دکانداری بند ہوجائے گے ، ایک مرد کی تعلیم سے عام طور پر محض ایک مرد ہی فائدہ اٹھاتا ہے جبکہ ایک تعلیم یافتہ عورت پورے خاندان کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں کردار ادا کرتی ہے ، عورت پر چونکہ گھریلو ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں اسلئے بھی عو رت کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے پورا کر سکے۔
تربیت اولاد میں ماں کا کردار باپ کے کردار سے اہم کیوں ؟
اولاد کی تربیت کے حوالے سے ماں کا کردار باپ کے کردار سے زیادہ اہم ہوا کرتا ہے کیونکہ اولاد زیادہ تر وقت ماں کے قریب رہ کر گزارتی ہے اس لئے ایک ماں کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کر سکے اور ان کو معاشرے کا کارآمد فرد بنا سکے، اتنی اہمیت کی حامل ہستی کو جس پر پورے خاندان کا ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کا انحصار ہوتا ہے، تعلیم سے نابلد رکھنا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے؟اسی لئے ملک بھر میں تعلیم نسواں کا عام کیا جانا ضروری ہے
دنیا میں جو اقوام اور معاشرےتعلیم نسواں پر زور دیتے ہیں اور اپنی عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ رکھتے ہیں ترقی اور خوشحالی ان کے قدم چوم لیتی ہے ،اس کے برعکس جو معاشرے تعلیم نسواں کو اہمیت نہیں دیتے اور عورت کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں تنزلی اور تباہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ دنیا کہ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی جن میں مرد حضرات اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں مثلا ڈاکٹری، طب، وکالت، انجینیرنگ، تدریس وغیرہ ، ان تمام شعبہ جات میں خواتین بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا مندوا سکتی ہیں۔اگر آج ہماری قوم تعلیم نسواں کی اہمیت کو سمجھ جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
مغربی دنیا کی ترقی اور تعلیم نسواں
مغرب آج بڑی تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہے ان کی اس تمام تر ترقی میں ایک بڑا کردار تعلیم نسواں کا ہے ، مغربی معاشرے میں عورتوں کو تعلیم کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اس مقصد کے لئے وہاں بڑے بڑے ادارے ہیں جہاں عورتیں تعلیم حاصل کرسکتی ہیں وہاں عورتوں پر حصول تعلیم کے لحاظ سے کسی قسم کی قدغن نہیں ہے ، تعلیم نسواں ہی کی وجہ سے آج مغرب ستارون پر کمندیں ڈال رہا ہے اور ہم ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ عورت کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے کہ نہیں۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ مرد کی بالا دستی ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا کر عورت کو چادر اور چار دیواری تک محدود کرنا چاہتا ہے حالانکہ دین کی پاسداری کرتے ہوئے اور اسلامی حدود کے دائرے کار میں رہتے ہوئے کوئی بھی عورت تعلیم حاصل کرسکتی ہے، دیں نے اس پر کوئی روک ٹوک عائد نہئیں کی عورت کو اس کے اس بنیادی حق سے نہ دین روکتا ہے اور نہ ہی کوئی فقہ اس سلسلے میں عورت پر کوئی پابندی عائد کرتی ہے۔
خواتین اسلام اور تعلیم نسواں
تاریخ اسلام پر اگر نظر دوڑائیں تو اس کے صفحات میں خواتین اسلام کی کار گزاریوں کی داستانیں آپ کو جا بجا ملیں گی، مسلمان خواتین جنگ میں مردوں کے ساتھ شریک ہوا کرتی تھیں، زخمیوں کی دیکھ بھال اور مجاہدین کو پانی پلانا ان کی ذمے داری ہوتی تھی ، ایک جنگ میں جب دشمن کی فوج قلعے پر حملہ آور پوئی تو اس قلعے میں خواتین موجود تھیں ، حضرت خنساء نے قلعے کی حد کو عبور کرلینے والے سپاہی کے سر پر وار کیا اور اس کا سر کاٹ کر قلعے کی چھت سے نیچے پھنک دیا جس کی وجہ سے کفار کے لشکر جرار کو قلعے پر حملے کی جرات نہ ہوسکی ، حالانکہ اس وقت قلعے میں صرف خواتین موجود تھیں۔
اس طرح تاریخ اسلام میں حضرت خدیجہ ،حضرت فاطمۃ الزہرا ، حضرت زینب اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہھن جیسی ہستیوں کا کردار موجود ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جہاں قرآن کریم کی پہلی حافظہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو دوسری طرف یہ ایک بلند پایہ محدثہ بھی تھیں ، ان سے کم و بیش2210 احادیث مروی ہیں،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام بھی تعلیم نسواں کا درس دیتا ہے صحابہ کرام کو جب کسی مسئلے میں اشکال ہوتا تو وہ ام المومنین حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے حل طلب مسئلہ دریافت کرتے ، اس نسبت سے آپ ہزاروں صحابہ کرام کی استاد بھی تھیں۔
حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ ہمیں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو اس کا حل ام المومنین حضرت عائشہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا کرتیں ، حضرت عائشہ کو اس کے علاوہ شعر و ادب ،طب ودیگر علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔